Tamaskhar | Creative Short Story



تمسخر





(For better view please use a tablet or a laptop to open the site)





آج کافی  عرصےبعد باہرکھانا کھایں گے۔ گھر پر تو روزہی کھاتے ہیں۔   ظاہرہے گھر پر تو ہرکو ٸ روز ہی کھاتاہے!

تاریکی پوری طرح جب غالب آ گٸ توشفیق صاحب کی فیملی روانہ ہوٸ۔ سوساں روڈکے سگنل پر کاررکی۔ بریک کا لگنا تھا کہ ایک بارہ سالہ غریب(یہی اس کا بہترین تعارف ہے) غباروں کی ایک لڑی لۓ کارکےشیشے بجانے لگا۔ ایک غبارہ خرید لیا جاۓ۔ شاید وہ یہ چاہتا تھا۔ شفیق صاحب کےبچے جوان تھےوہ اس 
غبارے کا کیاکرتے بھلا؟

                                              
ایک دلیل یہ اور اس کے بالمقابل اس غریب کی بھو ک کی دلیل جو  ظاہرہے کافی کمزورتھی۔ سو غبارہ نہ خریدا گیا۔
 وہ   غریب پچھلی سیٹ کےمسافر کی طرف متوجہ ہوااس نے کیا متوجہ ہونا تھا!  اس مسافر کو اپنی طرف متوجہ کیا جوشفیق صاحب کی صاحبزادی خدیجہ تھی۔ انٹر کی طالبہ اور کار کے باہر کی دنیا میں مگن ومصروف۔ اس غریب پر نظر پڑی تواسے وہ  با ت یاد  آ ٸ جو اس نے ایک  بار یونہی اپنے والد سے کہی تھی: خدانے انسانوں میں انصاف نہیں کیا۔جس کا جواب کچھ یوں ملا کہ خدانے اس دنیا کا نظام بھی تو چلاناہے نا جو یونہی چلنا تھا۔ ایک پل کےلۓ تواسے خدا بھی مجبور سا لگا۔ اٗف!                       

غبارہ کیسے خرید سکتی تھی وہ۔ وہ کیا کرتی غبارے کا۔ دلیل بھوک پھرسے کمزور۔
  
اس کی آنکھوں میں انکار دیکھتےہی وہ غریب تو جیسے تلملا سااٹھا۔ آخر کھا کیوں نہیں جاتا وہ اسے جسکے ہا تھ میں اسکے مرض بھوک کا علاج ہے۔ اس نے اپنا واحد اثاثہ سڑک پر دے مارا۔(اچھا! اسے بھی غصہ آتاہے؟)کسی نے خدیجہ کے منہ پرتمانچہ تو نہیں دے مارا ۔ چنگا بھلا تھاابھی اوراگلے ہی پل آنسو ٶں کا توسمندر ہی امڈ آیا ہو۔اپنا بچا کچا اثاثہ    اس نے پھربے بس سا ہو کرسمیٹ لیا۔ بازو آنکھوں  پہ ملتاواپس مڑ گیا۔ بھلا یہ کیا امیروں والی حرکت کی تھی اس نے۔
   
   فٹ پاتھ پر پہنچ کر ترچھےزاوےسے مڑ کر اس کار کو دیکھا۔ پتہ نہیں کیوں شاید اس لۓ کہ خدیجہ اسے  مسلسل دیکھ رہی تھی۔ فٹ پاتھ کی دوسر ی طرف سڑک نہیں بل کہ ڈھلوان زدہ سبز میدان تھا۔ وہ آستین سے آنسو پونچھتااثاثہ زندگی سمیٹتا قدم بڑھاتا گیا اور پھر سبز بتی۔ کار چل پڑی۔


 ویٹر بل لے آیا۔ نہ جانے کیوں وہ یہ سوچنے لگی کہ وہ غریب ایک غبارے کے پیچھے کتنا کما لیتا؟ دس روپے؟ پندرہ روپے؟ بہرحال بل تھا پندرہ سوروپے۔ مناسب تھا آخرپانچ افراد تھے اتنا تو بنتا ہی تھا۔

 لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی ابھی کیا اس نےاس غریب    کی بے بسی پر قہقہہ لگایا۔ پندرہ روپے۔۔۔۔۔۔۔ ایک وقت کا کھانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پندرہ سوروپے۔ ان کاتو کوٸ ربط نہیں ہے آپس میں ہےنا؟بلکل نہیں۔ ویسے آخر ی بار یہاں آ ۓ تھے تو پیزا زیادہ لذیذ تھا۔ نشست چھوڑتہو ۓ اس نے سوچا۔

          

Post a Comment

0 Comments